کراچی (رپورٹر) حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ضلع ملیر کے رہنماؤں اور منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے مشترکہ طور پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے نیشنل ہائی وے اور ایم نائن کے درمیان واقع ایجوکیشن سٹی منصوبے کے لیے اضافی زمین دینے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔اس کے ساتھ انہوں نے خط میںزرعی زمینوں کی لیز کی توثیق اور گوٹھوں کی ریگورائزیشن کے معاملات بھی اٹھائے ہیں.
خط پر دستخط کرنے والوں میں پیپلز پارٹی ضلع ملیر کے صدر عبدالرزاق راجہ، جنرل سیکریٹری امداد علی جوکھیو، اراکین قومی اسمبلی جام عبدالکریم بجار، عبدالحکیم بلوچ، آغا رفیع اللہ، اراکین صوبائی اسمبلی محمد ساجد جوکھیو، محمد سلیم، محمود عالم جاموٹ، محمد یوسف مرتضیٰ اور اعجاز خان شامل ہیں۔خط میں صوبائی وزیر برائے وومن ڈیولپمنٹ شاہینہ شیر علی اور رکن صوبائی اسمبلی فرزانہ کے نام بھی درج کیے گئے ہیں لیکن دونوں کے دستخط نہیںہیں.
خط میں لکھا گیا ہے کہ حکومت سندھ نے ایجوکیشن سٹی منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر 9600 ایکڑ زمین فراہم کی تھی اور اب مزید 10 ہزار ایکڑ زمین الاٹ کرنے جا رہی ہے، حالانکہ پہلے الاٹ کی گئی زمین بھی تاحال پوری طرح استعمال میں نہیں لائی گئی،خط میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ اگرچہ الاٹ کی گئی زمین تعلیمی مقاصد کے لیے فراہم کی گئی تھی لیکن اسے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس کے باعث مذکورہ منصوبے پر عوام میں تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔
ملیر سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور اراکین اسمبلی نے اپنے خط میں ایجوکیشن سٹی منصوبے کے علاوہ ضلع میں زرعی زمینوں کی لیز اور گوٹھوں کی ریگولرائزیشن کے معاملات بھی اٹھائے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ضلع ملیر میں زرعی مقاصدکے لیے مقامی لوگوں کو الاٹ کی گئی 10 سالہ اور 30 سالہ لیز ختم ہوچکی ہیں لیکن ابھی تک حکومت سندھ نے ان میں توثیق نہیں کی، اس لیے حکومت سندھ اس حوالے سے جلد کوئی پالیسی سامنے لائے اور لیز میں توثیق کے لیے ضروری قانون سازی کرے۔
اسی طرح ضلع ملیر کے کے کئی گاؤں 2023 تک ضلع کونسل کا حصہ تھے وہ بعد میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں شامل کردیے گئے اور انہیں شہری علاقے قرار دیا گیا لیکن اس عمل سے انتظامی اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں کیونکہ ان گوٹھوں کو ریگولرائزکرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے، لہٰذا اس حوالے سے ضروری قانون سازی کی جائے تاکہ ان گوٹھوں کی ریگولرائزیشن ہوسکے۔
دریں اثناء کراچی کی پرانی آبادیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم سندھ انڈی جینئس الائنس (Sindh Indigenious Alliance)کے صدر خدا ڈنو شاہ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے عوام کے سخت دباؤ کے بعد اپنے وزیر اعلیٰ کو خط لکھا ہے، ان کا یہ قدم عوام کو بے وقوف بنانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور اراکین اسمبلی نے کافی عرصے سے اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی تھی لیکن عوام کے دباؤ کے بعد رسمی طور وزیر اعلیٰ سندھ کو ایک خط لکھ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی خود اس قانون سازی کا حصہ تھے جس کے تحت ڈسٹرکٹ کونسل ختم ہوگئی اور ضلع ملیر کی دیہی آبادی کو کے ایم سی میں شامل کردیا گیا، اسی قانون سازی کے بعد سندھ گوٹھ آباد ایکٹ 1987 اور لینڈ روینیو ایکٹ 1967 غیر موئثر ہوگئے تھے جن کے تحت ضلع کے گوٹھوں اور زرعی زمینوں کو تحفظ حاصل تھا۔ خدا ڈنو شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو چاہیے کہ وہ خط لکھنے کے بجائے سندھ اسمبلی میں اپنا کردار ادا کریں اور ملیر کی زرعی زمینوں اور گوٹھوں کی قانونی حییثیت کو بحال کرائیں.
ایجوکیشن سٹی، زرعی لیز یا ضلع کونسل کی بحالی؟



