کراچی (ماینٹرنگ ڈیسک) وفاقی حکومت میں اتحادی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے بدھ کے روز کراچی کے میئر اور حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان جماعتوں نے کہا کہ کراچی میں گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی ضروری توسیع کو روکنے کے لیے جو ’’ناقابلِ فہم منطق‘‘ پیش کی جارہی ہے، وہ ناقابل قبول ہے۔روزنامہ ڈان میں صحافی عمران ایوب کی رپورٹ کے مطابق دونوںجماعتوں کے رہنمائوںنے الگ الگ پریس کانفرنسز میں الزام عائد کیا کہ پی پی پی کی زیرِ قیادت سندھ حکومت کراچی کی ترقی میں بیوروکریٹک رکاوٹیں ڈال رہی ہے، جہاں شہری پہلے ہی ناقص پبلک ٹرانسپورٹ نظام کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
وفاقی حکومت کے سندھ امور کے ترجمان بیرسٹر راجہ خالق الزمان انصاری نے عزم ظاہر کیا کہ گرین لائن بی آر ٹی کا اگلا مرحلہ جون 2026 تک مکمل کیا جائے گا۔انہوں نے کراچی کے میئر کی طرف سے منصوبے کو روکنے کے لیے پیش کی گئی ’’غیر منطقی دلیل‘‘ پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا: ’’میں سمجھ نہیں پا رہا کہ وفاق سے منظور شدہ ترقیاتی منصوبے کو روکنے کے پیچھے کیا منطق ہے۔ ایسی منطق میرے لیے ناقابلِ فہم ہے‘‘۔ ساتھ ہی انہوں نے انتظامی ’’مداخلت‘‘ پر تشویش ظاہر کی۔’’ایسا لگتا ہے کہ پی آئی ڈی سی ایل کے افسران کو میئر سے ملنے سے روکا جا رہا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو یہ انتہائی تشویشناک ہے اور مشترکہ طرزِ حکمرانی کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کی زیرِ حمایت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے چھ ارب روپے کے گرین لائن منصوبے کو اس بنیاد پر روک دیا تھا کہ پی آئی ڈی سی ایل نے تعمیر نو شروع کرنے سے قبل بلدیہ عظمیٰ سے این او سی حاصل نہیں کیا۔کے ایم سی حکام کا کہنا تھا کہ این او سی ہمیشہ کے لیے جاری نہیں کیا گیا تھا اور پی آئی ڈی سی ایل کو کام جاری رکھنے کے لیے دوبارہ منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔اب صورتحال بہتر ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے کیونکہ وفاقی حکومت نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ میئر کا دعویٰ ’’بے معنی ہے‘‘۔
بیرسٹر انصاری نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کراچی کے شہریوں کو بہتر سفری سہولتیں فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہے اور سندھ حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہتی ہے۔’’ہم سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے نہیں آئے۔ ہم عوام کے لیے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ تقریباً 42 ہزار مسافر روزانہ گرین لائن بسوں کا استعمال کرتے ہیں۔21 کلومیٹر طویل مرکزی کوریڈور پہلے ہی مکمل ہوچکا ہے، اور دوسرا مرحلہ لازمی ہے تاکہ ریڈ، یلو اور بلیو لائن سمیت دیگر بی آر ٹی لائنز کو ایک مربوط نیٹ ورک میں جوڑا جا سکے۔
انہوں نے کہا: ’’وفاقی حکومت کراچی میں 334 ارب روپے کے 22 میگا منصوبے شروع کرنے جا رہی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ سندھ حکومت اور میئر کراچی کے ساتھ تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں گے، بغیر کسی رکاوٹ کے۔‘‘ انہوں نے اشارہ دیا کہ وفاقی حکومت پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، جیسا کہ میئر مرتضیٰ وہاب نے مطالبہ کیا تھا کہ پی آئی ڈی سی ایل کو شہر کے ترقیاتی منصوبوں سے مکمل طور پر الگ کر دیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا: ’’وزیرِاعظم شہباز شریف دسمبر میں کراچی کا دورہ کرنے والے ہیں تاکہ کئی منصوبوں کا افتتاح کر سکیں، جن میں مزارِ قائد پر ایک بڑے لیپ ٹاپ تقسیم پروگرام کا آغاز بھی شامل ہے۔‘‘
دریں اثنا بہادرآباد میں قائم پارٹی کے عارضی ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم-پی کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور جاوید حنیف نے سندھ حکومت اور کراچی میئر پر شدید تنقید کی کہ وہ جان بوجھ کر اہم ترقیاتی منصوبوں، خصوصاً وفاقی حکومت کے تعاون سے چلنے والی گرین لائن بس سروس کو روک رہے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ پی پی پی حکومت ’’نہ خود کام کرنے اور نہ کسی اور کو کرنے دینے‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’چاہے این او سی موجود نہ بھی ہو، وہ وفاقی حکومت سے تعاون کر سکتے تھے بجائے اس کے کہ کام روک دیتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کنٹریکٹر کے مسائل پہلے ہی ایم کیو ایم-پی کی مداخلت سے حل ہو چکے تھے اور 1.8 کلومیٹر ٹریک پر کام شروع ہونا تھا۔انہوں نے پیپلز پارٹی پر کراچی کے دیگر بڑے انفرااسٹرکچر منصوبوں، جیسے کے- IV واٹر پروجیکٹ، کورنگی کے فلائی اوورز اور گلستانِ جوہر میں انڈرپاسز مکمل نہ کرنے پر بھی کڑی تنقید کی۔
ایم کیو ایم رہنما جاوید حنیف نے عزم ظاہر کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان وفاقی منصوبوں کی نگرانی جاری رکھے گی اور یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بھی تعاون کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جہاں ممکن ہو، اور جہاں کریڈٹ بنتا ہے وہاں انہیں تسلیم کیا جائے گا۔انہوں نے دعویٰ کیا: ’’وفاقی حکومت کو سندھ حکومت سے وفاقی منصوبوں کے لیے این او سی لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘



