خارس ہائوس مسماری، بلڈنگ کنٹرول کے افسران معطل، کیس داخل

کراچی (رپورٹر) چیف سیکریٹری سندھ کے حکم پر محکمہ ثقافت و سیاحت نے بدھ کو باتھ آئی لینڈ کلفٹن میں‌واقع محفوظ ثقافتی ورثے ‘خارس ہائوس’ کی غیرقانونی مسماری میں‌ملوث سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران اور بلڈنگ کے مالک کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی ہے، بوٹ بیسن تھانے میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر اشفاق کھوکھر، ڈپٹی ڈائریکٹر آغا کاشف اور بلڈنگ کے مالک دھمائی کاوس جی کنجا کو نامزد کیا گیا ہے، تاہم شام تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی تھی.
ایک دن قبل چیف سیکریٹری کے حکم پر مذکورہ دونوں‌افسران کو معطل کیا گیا تھا، جبکہ عمارت کی مسماری کو روکنے میں ناکامی پر محکمہ ثقافت و سیاحت کی ہیریٹیج سے متعلق ڈپٹی ڈائریکٹر پریھہ منگی کو بھی معطل کیا گیا تھا.یہ عمارت، جو پلاٹ نمبر FT-4/14، باتھ آئی لینڈ روڈ، کلفٹن روڈ، فرئیر ٹاؤن کوارٹرز کراچی میں واقع تھی، محکمہ ثقافت سندھ کی جانب سے 8 مارچ 2018 کو باقاعدہ طور پر ایک محفوظ ورثہ قرار دی گئی تھی۔ اس عمارت کو اس کی تاریخی اور معماری اہمیت کے باعث سندھ کلچرل ہیریٹیج (پریزرویشن) ایکٹ کے تحت تحفظ حاصل تھا۔چیف سیکریٹری سندھ آصف حیدر شاہ کی ہدایت پر کمشنر کراچی کی جانب سے اس واقعے کی انکوائری کی گئی، جس میں نہایت سنجیدہ بے ضابطگیوں اور سرکاری افسران اور مالک کے مابین ملی بھگت کو بے نقاب کیا گیا۔ انکوائری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) نے قانونی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے عمارت کو مسماری کی اجازت دے دی، اور کسی بھی مرحلے پر محکمہ ثقافت سے مشاورت نہیں کی گئی۔
انکوائری میں بتایا گیا کہ ایس بی سی اے کی ٹیکنیکل کمیٹی برائے خطرناک عمارات نے 4 جنوری 2024 کو اس عمل کا آغاز کیا، جس میں پاکستان کونسل آف آرکیٹیکٹس اینڈ ٹاؤن پلانرز (PCATP) اور ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز (ABAD) جیسی متعلقہ پیشہ ور تنظیموں کو شامل نہیں کیا گیا۔ کمیٹی نے خود بھی اپنی میٹنگ میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ یہ عمارت “تاریخی ورثے” کی معلوم ہوتی ہے اور اس کے بارے میں متعلقہ ادارے سے تصدیق درکار ہے، مگر اس کے باوجود ایس بی سی اے نے 18 اکتوبر 2024 کو مالک محترمہ دھمائی کواؤجی کنجا کو مسماری کی اجازت جاری کر دی۔
ایس بی سی اے نے بعد ازاں اس غیر قانونی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ایک غیر متعلقہ عدالتی کیس (سوٹ نمبر 666/2024) کا حوالہ دیا، جسے انکوائری نے مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا۔ مزید یہ کہ ایس بی سی اے نے مسماری کی اجازت جاری ہونے کے کئی ماہ بعد 28 مارچ 2025 کو مالک کو محکمہ ثقافت سے تصدیق لینے کا کہا، جو محض ایک رسمی اور بعد از وقت کارروائی ثابت ہوئی۔ ایس بی سی اے نے 5 اپریل 2025 کو ایک سیلنگ آرڈر بھی جاری کیا، مگر عمارت پہلے ہی عیدالفطر کی تعطیلات کے دوران مسمار کی جا رہی تھی، جب زیادہ تر سرکاری دفاتر بند تھے، جو اس عمل کی منصوبہ بندی اور بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
انکوائری میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ عمارت کی مسماری کا پہلا نوٹس ڈپٹی کمشنر ساؤتھ نے لیا، نہ کہ ایس بی سی اے یا محکمہ ثقافت نے۔ ایس بی سی اے نے بعد میں اجازت منسوخ کرنے اور نوٹس بھیجنے کی کوشش کی، مگر ٹی سی ایس ریکارڈ سے ثابت ہوا کہ یہ نوٹس بھی تاخیر سے بھیجے گئے اور بروقت اسسٹنٹ کمشنر کو اطلاع نہ دی گئی، جس کی وجہ سے مؤثر کارروائی ممکن نہ ہو سکی۔
انکوائری رپورٹ میں واضح طور پر بدانتظامی، مجرمانہ غفلت اور ملی بھگت کی نشاندہی کی گئی ہے، اور ایس بی سی اے کے ذمہ دار افسران اور جائیداد کی مالک کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ ان سفارشات کی روشنی میں چیف سیکریٹری سندھ نے احکامات جاری کیے ہیں کہ ایس بی سی اے کے ڈائریکٹر ساؤتھ اشفاق حسین، ڈپٹی ڈائریکٹر ساؤتھ آغا کاشف، اور جائیداد کی مالک دھمائی کواؤجی کنجا کے خلاف فوری طور پر ایف آئی آر درج کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر سائوتھ اور ڈپٹی ڈائریکٹر سائوتھ کع معطل کرنے کا حکم دیا گیا۔ مزید برآں، ایس بی سی اے کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے اور محکمہ ثقافت کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیریٹیج کو معطل کر کہ محکمہ جاتی کاروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔
یہ معاملہ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے علم میں بھی لایا گیا، جنہوں نے انکوائری رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ذمہ دار افسران کے خلاف کی گئی کارروائی کی مکمل حمایت کی۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے تاریخی عمارت کی غیر قانونی مسماری پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے واقعات پر سخت کارروائی ضروری ہے۔ انہوں نے سندھ کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے حکومت کے عزم کو بھی دہرایا.
چیف سیکریٹری سندھ نے محکمہ ثقافت کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ کراچی میں تمام محفوظ ورثے کی حامل عمارات کا فوری سروے اور میپنگ شروع کرے، تاکہ ایسی عمارات کی نشاندہی کی جا سکے جو نظراندازی یا بدنیتی پر مبنی مسماری کے خطرے سے دوچار ہیں۔ چیف سیکریٹری نے واضح کیا کہ سندھ کے ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی فرد یا ادارے کے خلاف سخت قانونی اور انتظامی کارروائی کی جائے گی۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد 23 اپریل 2025 کو چیف سیکریٹری نے سخت تشویش کا اظہار کیا تھا اور کمشنر کراچی کو مکمل انکوائری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔ حکومت سندھ اس معاملے میں انصاف کو یقینی بنانے اور سندھ کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ یہ واقعہ تمام افراد اور افسران کے لیے ایک کڑا پیغام ہے کہ ورثے کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں