کراچی (رپورٹ: ابن صالح)کلفٹن کراچی میںواقع تین اہم عوامی پارکس — باغ ابنِ قاسم، بیچ پارک، اور شہید بینظیر بھٹو پارک (بوٹ بیسن پارک) ایک بار پھر تجاوزات اور تجارتی استعمال کے خطرے سے دوچار ہیں، یہ خطرات اس وقت بڑھ گئے جب حال ہی میں اچانک کے ایم سی نے بیک وقت تینوںپارکس کی بائونڈری وال گرانا شروع کردی، اس عمل کو کلفٹن کے رہائشیوں اور سول سوسائٹی نے ایک بڑے قبضے کی تیاری قرار دیا اور اس کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے، اس دوران کے ایم سی کے ترجمان کے وضاحتی بیان نے ان خدشات کو مزید تقویت پہنچائی جس میںانہوں نے کہا کہ پارکس کی دیواروں کو اس لیے گرایا جا رہا ہے تاکہ مذکورہ پارکس کی خوبصورتی کو نمایاں کیا جاسکے.
واضح رہے کہ اس سے پہلے بنی ہوئی بائونڈری وال سے بھی مذکورہ پارکس نمایاں طور پر نظر آ رہے تھے اس لیے کے ایم سی ترجمان کے وضاحتی بیان نے بھی دال میںکچھ کالا ہونے سے متعلق شکوک بڑھادیے. اور شہریوں کے ذہنوں میںسوالات پیدا ہوئے کلفٹن جیسے اہم علاقے میں بڑا رقبہ رکھنے والے تینوں پارکس کی دیورایں گرانے کا فیصلہ کہاں کیا گیا؟ کس کے احکامات پر بیک وقت تینوں اہم پارکس کی دیواریں توڑنے کا فیصلہ ہوا؟ کیا یہ حکم محض محکمہ بلدیات سندھ سے ملا یا پھر اس سے بھی اوپر کے احکامات موصول ہوئے؟
مذکورہ پارکس پر تجاوزات اور ان کے تجارتی استعمال سے متعلق خدشات اس لیے بھی بڑھے کہ صرف کلفٹن میںواقع قیمتی زمین رکھنے والے بڑے پارکس ہی کو ‘خوبصورت’ دکھانا کیوں مقصود تھا، اگرچہ کے ایم سی کے پاس شہر میں 47 پارکس موجود ہیں، ان میں سے 28 پارک صرف کلفٹن کے علاقے میںواقع ہیں. اس کی وجہ شاید مذکورہ تین پارکس کا وسیع رقبہ اور اہم لوکیشن ہے. کے ایم سی کے رکارڈ کے مطابق باغ ابن قاسم 130 ایکڑ وسیع ایراضی رکھنے والا پارک ہے، جبکہ اس کے بلکل سامنے واقع بیچ پارک 47 ایکڑ پرواقع ہے ، اسی طرح بوٹ بیسن پر واقع شہید بینظیر بھٹو پارک 55 ایکڑ پر محیط ہے.کلفٹن جیسے مہنگے ترین علاقے میںکے ایم سی کے زیر انتظام مذکورہ تینوںپارکس جتنا رقبہ رکھنے والا کوئی اور پارک دستیاب نہیں ہے.
واضحرہے کہ باغ ابنِ قاسم کراچی کے بڑے پارکس میں شمار ہوتا ہے۔ اس میں جہانگیر کوٹہاری پریڈ، لیڈی لائیڈ پیئر، قدیم فوارے، چہل قدمی کے راستے اور وسیع سبزہ زار جیسے تاریخی اور تفریحی مقامات شامل ہیں۔ اپنی ثقافتی، تاریخی اور عوامی اہمیت کے باوجود، اس پارک کو بارہا زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کی نظریں جمی رہی ہیں۔ بعض گروہ اس کی زمین کے حصے تجارتی سرگرمیوں، نجی تقریبات یا تعمیراتی منصوبوں کے لیے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اسی طرح بیچ پارک، جو کلفٹن بیچ کے ساتھ واقع ہے، بھی تجاوزات کے خطرے سے محفوظ نہیں رہا۔ سمندر کے قریب ہونے، کھلی جگہ اور خوبصورت نظاروں کی وجہ سے یہ خطہ تجارتی منصوبوں، ریسٹورنٹس اور نجی سہولیات کے لیے نہایت پُرکشش ہے۔
شہید بینظیر بھٹو پارک، جو بوٹ بیسن کے علاقے میں واقع ہے، بھی اسی نوعیت کے مسائل کا شکار ہے۔ عوامی خزانے سے خطیر رقم خرچ کرکے تیار کیا جانے والا یہ پارک طویل عرصے سے عدم توجہی، خراب انتظام اور مختلف اداروں کی باہمی کشمکش کا شکار رہا ہے۔ جب کسی پارک کی حالت خراب ہو، تو اس کے کچھ حصے تجاوزات کے لیے آسان ہدف بن جاتے ہیں، اور پھر اسے “ترقی” کے نام پر مستقل قبضے میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس پارک کی قیمتی جگہ بھی تجارتی مفادات کے لیے مسلسل نشانے پر رہتی ہے۔
ان پارکس کو لاحق خطرہ صرف زمین چھن جانے کا نہیں، بلکہ عوام کے حقوق، تاریخی ورثے اور شہری معیارِ زندگی کے زوال کا معاملہ ہے۔ تجاوزات سے نہ صرف سبزہ اور کھلی جگہیں کم ہوتی ہیں، بلکہ خاندانوں کی تفریح، شہری ماحول کی بہتری اور سماجی میل جول کے مواقع بھی محدود ہو جاتے ہیں۔ رہائشیوں، سول سوسائٹی اور مقامی رہنماؤں نے ان خدشات کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان عوامی مقامات کو فوری طور پر تحفظ دیا جائے۔
کلفٹن کے تینوںبڑے پارکس کی بائونڈری وال گرانے کا فیصلہ کیوںہوا؟



