کراچی (ابن صالح) حزب اختلاف یا حکومت کے مخالفین کا تو کام ہی جائز ناجائز تنقید کرنا ہوتا ہے لیکن حکومت سندھ یا وزیر اعلیٰ سندھ نے آخر اپنے آپ کو تمام معاملات میںکیوںالجھائے رکھا ہے؟صوبے میں سیلاب کی صورتحال کو دیکھنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کراچی میں ٹریفک کے مسائل، شہر میںسیوریج کے مسائل، یا پھر حالیہ برساتوں میںپانی کی نکاسی کا مسئلہ ، یہ کام تو بلدیاتی اداروں اور صوبائی حکومت کے متعلقہ محکموں کے ہوتے ہیں،وہ ہی تمام خرابیوں کے ذمہ دار ہوںاور انہی کو ہی وضاحتیں پیش کرنی چاہئیں، وزیر اعلیٰ سندھ یا چیف سیکریٹری کو بھی ان ہی اداروں سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے نہ کہ خود نکل پڑیں اور وضاحتیں دیتے پھریں.
یہ کام تو میئر کراچی، واٹر کارپوریشن یا متعلقہ ٹائون کارپوریشن کا ہونا چاہیے، اگر فرض کرلیا جائے کہ حکومت سندھ کی بھی کسی حد تک ذمہ داری بنتی ہے تب بھی اس کے لیے محکمہ بلدیات سندھ کے افسران یا پھر اس کے وزیر سعید غنی کو آگے آنا چاہیے تھا، وزیر اعلیٰ کو نہیں. اسی طرحٹریفک کے مسائل کے لیے ڈی آئی جی ٹریفک سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے اور اسی کو وضاحتیں پیش کرنی چاہیئیں نہ کہ وزیر اعلیٰسندھ یا چیف سیکریٹری سندھ کو.
ابھی کل ہی کی بات ہے، ملیر ندی میںتغیانی کےباعث پانی کے ریلے نے نئی بننے والی سڑک شاہراہ بھٹو یا ملیر ایکسپریس وے کو ایک جگہ سے نقصان پہنچایا،سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیوز وائرل ہوئیں اور حکومت سندھ پر تنقید ہونے لگی تو وزیر اعلیٰہائوس کو اس کی وضاحت جاری کرنا پڑی کہ اس جگہ ابھی سڑک بنی نہیںتھی بلکہ زیر تعیر تھی، یہ ہی وضاحت اس سے پہلے اس کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو کرچکے تھے، تو وزیراعلیٰہائوس کو کیا ضرورت تھی وضاحت کرنے کی؟ یہ سڑک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بن رہی ہے اس کا کسی کمپنی یا ٹھیکہ دار کو ٹھیکہ دیا گیا ہوگا، اگر کہیںکوئی کوتاہی ہوئی بھی ہے تو اس کی ذمہ دار وہ کمپنی یا ٹھیکہ دار ہوتا، اس سے پوچھ گچھ کی جاسکتی تھی، وزیر اعلیٰ ہائوس کو وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی؟ یہ تو وہ والی بات ہوئی کہ ‘آ بیل مجھے مار’.
وزیر اعلیٰ سندھ نے خود کو کیوںالجھایا ہوا ہے؟



