تھانہ سکھن اور بن قاسم میں‌بھتہ خوری کے واقعات بڑھ گئے

کراچی (ڈسٹرکٹ رپورٹر) ضلع ملیر کے تھانہ سکھن اور بن قاسم کی حدود میں ڈیری کے کاروبار سے منسلک تاجروں‌سے 15 دنوں میں یکے بعد دیگرے بھتہ طلبی کے 3 واقعات رونما ہوئے ہیں، ان واقعات میں ملوث ملزمان نے مقامی تاجروں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے فائرنگ بھی کی ہے، فائرنگ کے ایک واقعے میں بھینس کالونی عبدالطیف نامی ایک تاجر بھی زخمی ہوئے ہیں، اس صورتحال میں مقامی تاجروں میں‌سخت خوف و حراس پایا جاتا ہے، متعلقہ تھانوں نے ان واقعات کی ایف آئی آر درج کی ہیں‌تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں‌نہیں آئی ہے.
27 اکتوبر کو تھانہ بن قاسم کے ايک واقعہ میں ملزمان نے ایک تاجر سے 25 لاکھ روپے بھتہ طلب کیا، 4 نومبر کو سکھن تھانے میں رونما ہونے والے ایک واقعے میں‌ ملزمان نے ایک تاجر سے 50 لاکھ روپے بھتہ طلب کیا اور نہ دینے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں.
واضح رہے کہ کراچی میں‌ملک کی سب سے بڑی بھینس کالونی واقع ہے جو ایشیا کی سب سے بڑی کالونیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ کالونی 1950 کی دہائی کے آخر میں اس مقصد سے قائم کی گئی تھی کہ شہر کی دودھ کی سپلائی کو منظم کیا جا سکے۔ وقت کے ساتھ یہ ایک بہت بڑے معاشی نظام میں تبدیل ہو گئی ہے جس میں دودھ پیدا کرنے والی فارمز، مویشیوں کی خرید و فروخت، ٹرانسپورٹ، چارے کی سپلائی اور دیگر معاون کاروبار شامل ہیں۔ آج یہ کراچی کی روایتی دودھ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔
مذکورہ علاقے میں‌ تقریباً 1,200 سے 1,500 ڈیری فارم (باڑے) موجود ہیں۔ یہ فارم چھوٹے گھریلو شیڈز سے لے کر بڑے کمرشل یونٹس تک مختلف نوعیت کے ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 50 ہزار سے 4 لاکھ تک مویشی دستیاب ہیں، جن میں سب سے زیادہ تعداد بھینسوں کی ہے۔ معاشی لحاظ سے کیٹل بھینس کالونی کراچی کی فوڈ سپلائی چین کا انتہائی اہم حصہ ہے۔ یہاں روزانہ 30 سے 40 لاکھ لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کراچی کی دودھ کی کھپت کا بہت بڑا حصہ اسی کالونی سے آتا ہے۔ یہ دودھ ٹینکرز، موٹر سائیکلوں اور بڑے کنٹینرز کے ذریعے شہر کے تقریباً ہر علاقے تک پہنچایا جاتا ہے، جہاں گھریلو صارفین کے علاوہ مٹھائی کی دکانیں، بیکریاں، چائے کے ہوٹل، ریسٹورنٹس اور دیگر تجارتی خریدار اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مالی اعتبار سے یہ علاقہ ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں روزانہ تقریباً 28 سے 30 کروڑ روپے کا دودھ فروخت ہوتا ہے، جو سالانہ 100 ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔ اگر اس میں چارے، ویٹرنری سروسز، ٹرانسپورٹ، جانوروں کی خرید و فروخت اور دیگر متعلقہ کاروبار کو شامل کیا جائے تو مجموعی معاشی حجم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ یہ کالونی دو لاکھ سے زیادہ افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ ان میں دودھ فروش، مزدور، ٹرانسپورٹر، چارہ فروش، مکینک، ویٹرنری ڈاکٹر، دکاندار اور دیگر کئی شعبوں کے لوگ شامل ہیں۔ کالونی کے اردگرد ہزاروں چھوٹے کاروبار چلتے ہیں جو جانوروں کے چارے، ادویات، آلات اور مشینری فروخت کرتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں